Orhan

Add To collaction

دل سنبھل جا ذرا

دل سنبھل جا ذرا 
از قلم خانزادی 
قسط نمبر2

وہ گھر پہنچے تو منال کی امی جلدی سے ان کی طرف منال کہاں ہے۔۔۔؟؟ آپ اس کو لینے نہی گئے۔وہ سوال پر سوال کرتی چلی گئی۔۔کیا ہوا آپ کچھ بول کیوں نہی رہے۔۔میں پوچھ رہی ہوں منال کہاں ہے۔۔!!
منال نہی آئی میرے ساتھ۔۔۔انہوں ایک جملے میں بات مکمل کر ڈالی۔۔۔اور سر تھام کر بیٹھ گئے۔۔اب کیا کر سکتے تھے وہ۔۔۔کیسے بچائیں اپنی بیٹی کو۔۔ان کی سمجھ میں کچھ نہی آ رہا تھا۔۔!!
منال کیوں نہی آئی چھٹی تو دو بجے ہونی تھی نہ۔۔۔اب تو تین بج چکے ہیں۔۔۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔اتنی لیٹ تو چھٹی نہی ہوتی۔۔۔آپ دوبارہ جائیں کالج۔۔اور اسے ساتھ لے کر آئیں۔۔اتنا ٹائم ہو گیا ہے۔۔وہ اکیلی پریشان ہو رہی ہو گی۔۔۔!!
نہی ہمیرا تم چپ ہو جاو کچھ دیر کے لیے۔۔۔۔منال اب کبھی واپس نہی آنے والی۔۔۔وہ چلاتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔!!
یہ کیا کہ رہے ہیں آپ۔۔؟؟ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ اللہ نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو کہ میری بیٹی کبھی گھر واپس نہ آئے۔۔۔!!
آخر ہوا کیا ہے آپ کچھ بول کیوں نہی رہے۔۔۔میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔۔کہاں ہے منال۔۔۔؟؟
جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔۔۔پتہ نہی کیا سلوک کریں گے وہ لوگ میری بیٹی کے ساتھ۔۔۔ناکردہ گناہوں کی سزا ملے گی اسے۔۔میں بہت بے بس ہو چکا ہوں۔۔کسی سے کچھ کہ بھی نہی سکتا۔۔۔!!
کیا مطلب کون لوگ۔۔؟؟ کن کی بات کر رہے ہیں آپ۔۔؟؟ 
سانیہ کے گھر والوں کی بات کر رہا ہوں میں۔۔۔اس کا بھائی واپس آ گیا ہے۔۔۔اور جو کچھ تمہارے صاحبزادے نے ان کی بیٹی کے ساتھ کیا ہے۔۔وہی وہ اب ہماری بیٹی منال کے ساتھ کرے گا۔۔!!
یہ کیا کہ رہے ہیں آپ۔۔۔میری بچی کا کیا قصور بھلا اس میں آپ بات کریں ان سے۔۔۔!! جو کچھ ہوا اس میں سانیہ برابر کی شریک ہے فہیم کے ساتھ۔۔۔اس میں منال کا کیا قصور ہے۔۔۔؟؟
آپ بات کریں ان سے پتہ نہی میری بیٹی کس حال میں ہو گی۔۔۔!!۔۔مجھے لے چلیں ان کے گھر۔۔میں ان سے معافی مانگ لوں گی۔۔۔!! فہیم کی طرف سے آپ مجھے لے کر چلیں۔۔۔مجھے ملنا ہے منال سے۔۔۔
نہی ہم نہی جا سکتے وہاں۔۔!! اور پولیس کی مدد بھی نہی لے سکتے۔۔۔ہماری بیٹی ان کے قبضے میں ہے۔کچھ بھی کر سکتے ہیں وہ لوگ۔اسی لیے ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا پڑے گا۔۔
فہیم کا نمبر ملاو۔۔۔اب تو سانیہ ہی ہے جو ہماری مدد کر سکتی ہے منال کو واپس لانے میں۔۔۔یہ سب تمہارے صاحبزادے کے کرتوت ہیں جو میری بیٹی آج اس حال میں ہے۔۔!!
اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو چھوڑوں گا نہی میں فہیم کو اور سانیہ کو۔۔۔!! یہ سب کچھ ان دونوں کے گناہ کا نتیجہ ہے۔۔۔اگر میری بیٹی کو نقصان پہنچا تو ان دونوں کو بھی خوش نہی رہنے دوں گا میں۔۔!!
آپ غصہ نہ ہو آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔جو کچھ ہوا اس میں سانیہ بھی برابر کی شریک ہے۔خالی فہیم کا قصور نہی ہے۔۔میں ابھی فہیم کو فون کرتی ہوں۔۔۔!!
جلدی سے وہ فون کی طرف بڑھیں۔۔۔۔ہاں ہیلو فہیم جلدی گھر آ جاو بیٹا ہم لوگ بہت پریشان ہیں۔۔۔ایک مسلہ ہو گیا ہے۔۔۔!!
کیا ہوا امی سب خیریت تو ہے نہ۔۔۔؟؟ فہیم بھی پریشان ہو چکا تھا۔۔!!
کچھ خیریت نہی ہے فہیم تم جلدی گھر آ جاو گھر آو تو بتاتی ہوں تمہیں۔۔۔۔جلدی آو اور سانیہ کو ساتھ لیتے آنا۔۔۔!!
لیکن امی آپ تو جانتی ہیں نہ ابو سانیہ کو پسند نہی کرتے تو پھر میں کیسے گھر لا سکتا ہوں سانیہ کو۔۔۔کیا ابو گھر میں نہی ہیں۔۔۔۔!!
نہی تم سانیہ کو ساتھ ہی لے کر آو۔۔۔جو بات ہو گی اس کے سامنے ہی ہو گی۔۔۔تمہارے ابو گھر میں ہی وہ کچھ نہی کہتے تم سانیہ کو ساتھ ہی لے کر آو۔۔۔!!
گاڑی ایک خوبصورت بنگلے کے باہر جا رکی۔۔۔۔چوکیدار نے گیٹ کھولا تو گاڑی گھر کے اندر چلی گئی۔۔اندر پہنچ کر وہ شخص گاڑی سے باہر نکلا اور منال کی سائیڈ سے دروازہ کھول کر اسے بازو سے کھینچتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔!!
منال نے آج تک اتنا خوبصورت گھر پہلے کبھی نہی دیکھا تھا۔۔۔اگر کوئی اور وقت ہوتا تو بہت فرصت سے دیکھتی اس گھر کو لیکن اب اس پر جو بیت رہی تھی ایسے میں اس کے پاس گھر کو دیکھنے کا وقت نہی تھا۔۔۔!!
وہ اس پتھر دل انسان کے ساتھ کھینچتی چلی جا رہی تھی۔۔۔اس نے گھر کے سب سے آخری کمرے کا دروازہ کھولا اور مناہل کو کمرے میں لے جا کر اس کا بازو چھوڑ دیا۔اور کمرے سے باہر آ کر دروازہ لاک کر دیا۔۔۔!!
مناہل وہی زمین پر بیٹھ گئی کیونکہ اس کمرے میں بیٹھنے کی کوئی جگہ ہی نہی تھی۔۔مناہل سر گھٹنوں پر رکھ کر رو دی۔اس کے دل میں بار بار بابا اور ماما کا خیال آ رہا تھا۔۔۔۔!!
پتہ نہی کیا ہوا ہو گا جب بابا کالج پہنچے ہو گے۔۔۔ماما کو کیا بتائیں گے بابا۔۔۔سوچ کر منال کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔۔۔تب ہی منال کو باہر سے کسی کی باتوں کی آواز آئی۔۔۔!!
ابھی وہ آواز کے تعاقب میں کھڑکی کے پاس پہنچی ہی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک عورت اندر آئی۔۔چلو میرے ساتھ ایک نظر مناہل پر ڈالتے ہوئے بولی۔۔۔!!
مناہل کو اس کا لہجہ تھوڑا عجیب لگا۔۔میں نہی جاوں گی آپ کے ساتھ کہاں لے کر جانا چاہتی ہیں آپ مجھے۔۔۔؟؟
چپ چاپ میرے ساتھ چلو زیادہ باتیں نہ کرو۔۔۔چھوٹے صاحب کا حکم ہے کہ تمہیں ڈرائنگ روم میں لے کر آوں میں۔۔۔تمہارا نکاح ہے ابھی چھوٹے صاحب سے۔۔۔!!
اس نے جیسے مناہل کے سر پر بم پھوڑا۔۔۔اس کے الفاظ مناہل کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسے۔۔۔میرا نکاح کس سے۔۔۔؟؟
 میں نہی کروں گی یہ نکاح مجھے گھر واپس جانا ہے ابھی۔۔۔مناہل نے باہر کی طرف بھاگنے کی کوشش کی تب ہی کسی سے ٹکرا گئی۔۔۔وہ مناہل کے سامنے تھا۔۔۔۔!!
پلیز مجھے گھر جانے دیں۔۔میں نے کیا بگاڑا ہے آپ لوگوں کا۔۔۔؟؟ مجھے نہی کرنا کوئی نکاح۔۔۔پلیز مجھے میرے گھر چھوڑ دیں۔۔میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہو گے۔۔۔!!
صاحب جی میں تو ان سے کہ رہی ہوں کب سے کہ میرے ساتھ چلیں۔۔۔لیکن یہ جانے کو تیار ہی نہی ہو رہی تھیں۔۔۔وہ عورت جلدی سے اپنی صفائی میں بول پڑی۔۔۔!!
اس نے اس عورت کو آنکھوں سے اشارہ کیا کہ کمرے سے باہر نکل جائے۔۔۔وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔!!
وہ مناہل کی طرف مڑا۔۔۔اس کی آنکھوں پر اب گلاسز نہی تھے۔۔۔مناہل اس کی آنکھوں میں کھو سی گئی۔۔۔آج سے پہلے اس نے اتنی خوبصورت آنکھیں اس نے کسی کی نہی دیکھی تھیں۔۔۔!!
اگر تمہیں اپنے بابا اور بھائی کی جان پیاری ہے تو ابھی کے ابھی نکاح نامے پر سائن کرو۔۔۔اگر نہی تو پھر تیار ہو جاو۔۔۔اپنے باپ اور بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھنے کے لیے۔۔۔۔!!
وہ اب پہلی بار بولا تھا مناہل کے سامنے۔۔۔لیکن میرا قصور کیا ہے آخر۔۔۔؟؟ مناہل ہار مانتے ہوئے بولی۔۔۔!!
قصور۔۔۔۔؟؟ تمہارا کوئی قصور نہی ہے۔۔۔اب جلدی بتاو کیا فیصلہ ہے تمہارا میرے پاس زیادہ وقت نہی ہے۔۔۔چل رہی ہو۔۔۔یا پھر تمہارے باپ اور بھائی کو بلاوں میں یہاں مرنے کے لیے۔۔۔۔!!
اپنی بات کہ کر وہ رکا نہی تھا تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔اور مناہل بھی نہ چاہتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔۔۔!!
ایک کمرے میں پہنچ کر وہ صوفے پر جا کر بیٹھ گئی۔۔نکاح خواں نے نکاح کے پیپر اس کے سامنے رکھے۔۔اور نکاح پڑھانا شروع کر دیا۔۔۔!!
مناہل ولد حیدر علی۔۔۔آپ کو ملک حنان ولد ملک شہباز سے نکاح قبول ہے۔۔۔مناہل ہوش و حواس سے بیگانہ بیٹھی تھی۔۔۔نکاح خواں نے پھر سے یہ الفاظ دہرائے۔۔۔!!
مناہل نے التجائی نظروں سے اپنے سامنے بیٹھے اس پتھر دل انسان کی طرف دیکھا کہ شاید اس کے دل میں رحم پیدا ہو۔۔۔لیکن نہی وہ نظریں پھیر گیا۔۔۔اور اپنی جیب میں سے پسٹل نکال کر میز پر رکھی۔۔!!
مناہل اس کا اشارہ سمجھ گئی۔۔۔اس نے آنکھیں بند کر کے دل پر پتھر رکھ کر کہا۔۔۔قبول ہے۔۔۔اسی طرح اس نے تین بار قبول کر لیا۔۔۔اور نکاح نامے پر سائن کر دئیے۔۔۔!!
اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مناہل حیدر سے مناہل حنان بن گئی۔۔۔اس نے سوچا بھی نہی تھی کہ آج اس کی زندگی یوں بدل جائے گی۔۔۔اسے پتہ ہی نہی چلا کب نکاح خواں گیا۔۔اور کب اسے ڈرائنگ روم سے اس کمرے میں بند کر دیا گیا۔۔۔!!
اس کے ذہن میں تو بس یہی الفاظ گونج رہے تھے۔۔۔ملک حنان۔۔۔ملک حنان۔۔۔اسے نفرت ہو چکی تھی اس نام سے۔۔۔لیکن اب اس نام کے ساتھ اس کا نام جڑ چکا تھا۔۔اس کی زندگی جڑ چکی تھی۔اس سچ کو وہ جھٹلا نہی سکتی تھی۔۔۔!!
فہیم سانیہ کو لے کر گھر پہنچا تو مناہل کے اغوا کی خبر سن کر اس کے حوش اڑ گئے۔۔۔لیکن سانیہ اس بات کو سننے کے لیے بلکل تیار نہی تھی۔۔۔۔!!
ایسا نہی ہو سکتا حنان ایسا نہی کر سکتا۔۔۔مجھے یقین ہے اپنے بھائی پر اتنی گری ہوئی حرکت وہ نہی کر سکتا۔۔۔!!
اگر تمہیں واقعی ایسا لگتا ہے تو ابھی کہ ابھی فون لگاو اپنے بھائی کو۔۔۔سب سچ سامنے آ جائے گا تمہارے۔۔۔مناہل کے بابا بول پڑے۔۔۔!!
میرے پاس ان کا نمبر نہی ہے۔۔۔لیکن میں کسی کو بھجوا کر پتہ کروا سکتی ہوں۔۔لیکن اگر یہ بات غلط ثابت ہوئی تو اچھا نہی ہو گا۔۔۔کیا پتہ کوئی اور بات ہو۔۔کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو۔۔۔۔!!
چٹاخ۔۔۔!! ایک زور دار تھپڑ سانیہ کے منہ پر پڑا۔۔۔اور وہ گرتے گرتے بچی۔۔۔خبردار جو آئیندہ میری بہن کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے تم نے تو تمہاری زبان کھینچ لوں گا میں۔۔۔۔فہیم غصے سے بولا۔۔۔!!
سانیہ اپنی اتنی بے عزتی پر بوکھلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔اسے ابھی تک یقین نہی آ رہا تھا کہ فہیم نے اسے تھپڑ مارا ہے۔۔۔وہ گال پر ہاتھ رکھے ہوئے وہاں سے نکل گئی۔۔۔!!
بابا میں کسی طرح وہاں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔ابو آپ لوگ پریشان مت ہو۔۔۔!!
کیوں نا ہو۔۔۔ہم لوگ پریشان جوان بیٹی کا معاملہ ہے۔اور جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہو وہی ہمیں کہ رہا ہے کہ ہم ٹینشن نہ لیں۔۔۔!!
چلے جاو یہاں سے جا کر اپنی بیوی کو سنبھالو۔۔۔آئندہ ہمارے معاملات سے دور ہی رہوں تم دونوں میاں بیوی۔۔۔!!
فہیم سر جھکاتے ہوئے وہاں سے چل پڑا۔۔۔اس کی بہن کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا زمہ دار وہ خود ہی تو تھا۔۔گھر جانے کی بجائے وہ باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔اسے سمجھ نہی آ رہا تھا کہ کیسے پتہ کروائے کہ مناہل کو حنان نے اغوا کیا ہے یا کسی اور نے۔۔۔۔!!
کچھ دیر بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور حنان کمرے میں داخل ہوا۔۔منال تیزی سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھی۔۔کیوں کیا آپ نے یہ سب کچھ۔۔!!
آخر کیا مل گیا آپ کو یہ سب کر کے۔۔۔میں نے کیا بگاڑا تھا آپ کا۔۔۔؟؟ وہ حنان کا گریبان پکڑتے ہوئے بولی۔۔۔حنان نے ایک نظر منال پر اور دوسری نظر اس کے ہاتھوں میں جکڑے اپنی شرٹ کو دیکھا۔۔!!
اس کی رگیں تن گئیں غصے سے۔۔۔اس نے ایک جھٹکے میں منال کے ہاتھوں سے اپنا گریبان چھڑوایا اور ایک تھپڑ اس کے چہرے پر رسید کیا۔۔!!
منال اس کا تھپڑ برداشت نہی کر سکی اور لڑکھڑاتے ہوئی زمین پر جا گری۔۔!!
درد سے اس کی آنکھیں بھر آئی۔۔۔حنان وہی نیچے بیٹھ کر منال پر جھکا۔۔منال ڈر کر تھوڑا سا پیچھے ہٹی لیکن پیچھے دیوار تھی۔۔حنان نے ماہی کے جبڑے کو اپنے ہاتھ میں دبوچا۔۔۔!!
منال درد سے چلا اٹھی۔۔۔لیکن حنان پر اس کی چیخوں کا کوئی اثر نہی ہوا۔۔۔!!
تمہاری ہمت کیسے ہوئے میرے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی آج تک کسی کی اتنی ہمت نہی ہوئی کہ ملک حنان کے گریبان تک پہنچ سکے۔۔۔۔اور تم۔۔تمہاری کیسے ہمت ہوئی۔۔۔وہ چلاتے ہوئے بولا۔۔۔۔!!
منال درد سے چلا رہی تھی اس سے بولا بھی نہہی جا رہا تھا۔۔۔میں تمہاری جان لے لوں گا۔۔۔حنان کا ہاتھ اب منال کی گردن پر تھا۔۔منال کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔!!
منال کی حالت خراب ہوتے ہوئے دیکھی تو حنان نے اس کی گردن سے ہاتھ ہٹا لیا۔۔۔اور منال کو بالوں سے کھینچتے ہوئے بولا۔۔۔اس سے زیادہ تکلیف پہنچاوں گا میں تمہیں۔۔۔!!
بس دیکھتی جاو تم۔۔۔!! چلو اٹھ کر اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرو کہی جانا ہے ہمیں۔۔کہتے ہوئے منال کے بال چھوڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔!!
منال وہی فرش پر گر گئی۔۔اس کے ماتھے سے خون بہنا شروع ہو گیا۔۔۔لیکن وہ پرواہ کیے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے۔۔۔!!
یہ زخم تو بہت معمولی سا تھا۔۔۔ان زخموں کی نسبت جو اس کی روح پر لگے تھے۔۔۔!!
وہ حنان کے پیچھے پیچھے چلتی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔۔ان کے بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کر دی ڈرائیور نے۔۔۔!!
فہیم آخر کار تھکا ہارا گھر لوٹ گیا۔۔۔گھر کیا تو سانیہ منہ پھلائے بیٹھی تھی۔۔۔فہیم چلتا ہوا اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔سانیہ اسے دیکھ کر منہ موڑ گئی۔۔۔!!
ناراض ہو مجھ سے فہیم سانیہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی۔۔۔سانیہ کچھ نہی بولی۔۔۔چپ چاپ سر جھکائے آنسو بہاتی رہی۔۔۔فہیم نے آگے بڑھ کر اس کے آنسو صاف کیے۔۔۔۔!!
مجھے معاف کر دو سانیہ میں نے سب کے سامنے تم پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔تم نے بات ہی کچھ ایسی کی تھی مجھے غصہ آ گیا۔۔۔اس سے پہلے کہ یہ تھپڑ تمہیں کوئی اور مارتا۔۔مجھے مارنا پڑا۔۔۔!!
تم تو اچھی طرح جانتی ہو نہ منال کو۔۔وہ ایسی لڑکی نہی ہے۔۔وہ تو آج تک کبھی اکیلی گھر سے باہر نہی نکلی بھاگنا تو دور کی بات ہے۔۔۔پھر تم نے ایسی بات کیوں کی۔۔۔!!
مجھے پورا یقین ہے کہ میری بہن ایسا کوئی کام نہی کر سکتی جس سے بابا کی تربیت پر کوئی انگلی اٹھائے۔۔۔!!
مجھے بھی اپنے بھائی پر پورا یقین ہے وہ بہت سمجھدار ہے ایسا کچھ نہی کر سکتا وہ۔۔۔سانیہ جلدی سے بولی۔۔۔!!
ہاں ہو سکتا ہے سانیہ کے ایسا نا ہوا ہو۔۔۔لیکن پھر منال کہاں گئی۔۔۔سوچنے والی بات ہے کس نے اغوا کیا منال کو ہماری تو کسی سے کوئی دشمنی بھی نہی ہے۔۔۔فہیم نے جواب دیا۔۔۔!!
آپ بابا کے ساتھ پولیس سٹیشن جائیں۔۔کالج کے سی سی ٹی وی۔۔۔کیمروں سے شاید کوئی ثبوت ہاتھ لگ جائے۔۔۔سانیہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔۔۔!!
یہی تو مسلہ ہے سانیہ بابا تیار ہی نہی ہیں پولیس سٹیشن جانے کے لیے ان کو پورا یقین ہے کہ یہ کام تمہارے بھائی کا ہے۔۔وہ ڈرتے ہیں کہ کہی حنان کوئی نقصان نہ پہنچا دے منال کو۔۔۔!!
اسی وجہ سے وہ پولیس کو انوالو نہی کرنا چاہتے اس معاملے میں۔۔اب میں اکیلا بھی کیا کروں۔۔۔!!!!!!!!!
اچھا آپ پریشان مت ہو۔۔میں آپ کے لیے پانی لے کر آتی ہوں۔۔انشااللہ منال بہت جلد مل جائے گی۔۔۔اگر صبح تک منال کا کچھ پتہ نہی چلتا تو پھر ہم دونوں چلیں گے پولیس سٹیشن ایسے ہاتھ پر ہاتھ رکھے تو نہی بیٹھ سکتے نا ہم لوگ۔۔۔!!
ہممم ٹھیک کہ رہی ہو تم ایسا ہی کرنا پڑے گا۔۔اور کوئی راستہ بھی نہی ہے۔۔۔تم ایسا کرو میرے ساتھ چلو ہم لوگ گھر چلتے ہیں۔۔۔ماما بابا کو اس وقت ہمارے سہارے کی ضرورت ہے۔۔۔!!
ان کو اکیلا نہی چھوڑ سکتے ہم لوگ۔۔۔ہمارے علاوہ ان کا ہے ہی کون۔۔۔فہیم کچھ پریشان سا بولا۔۔۔!!!!
ٹھیک ہے آپ دروازے بند کریں اچھی طرح۔۔۔میں چادر اوڑھ کر آتی ہوں۔۔کہتے ہوئے سانیہ کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔!!
منال آنسو بہاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھی تھی چپ چاپ اچانک اس کی نظر باہر پڑی تو یہ راستہ اسے جانا پہچانا لگا۔۔۔۔یہ تو میرے گھر کا راستہ ہے۔۔۔منال کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔!!
گاڑی اس کے گھر کے دروازے کے باہر رکی تو منال دروازہ کھول کر تیزی سے گھر کی طرف دوڑی۔۔۔لیکن حنان نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا بازو تھام لیا۔۔۔!!
نہی مسز حنان ایسے نہی اچھی بیویاں اپنے شوہر کے ساتھ جاتی ہیں مائکے اکیلی نہی۔۔۔منال کو حنان کا لہجہ کچھ تنزیہ لگا۔۔۔اس کے چہرے کے آثار کو وہ سمجھ نہی سکی۔۔۔!!
حنان منال کا ہاتھ تھامتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گیا اور گارڈ بھی ساتھ چل پڑے۔۔۔لیکن حنان نے ان کو ہاتھ کے اشارے سے یہی رکنے کا اشارہ کیا۔۔۔!!
سانیہ اور فہیم وہاں پہنچے تو گھر کے باہر کھڑی گاڑی اور گارڈز کو دیکھ سانیہ کے حوش اڑ گئے۔۔۔نہی یہ نہی ہو سکتا۔۔۔وہ بے یقینی میں سر ہلاتے ہوئے اندر کی طرف بڑھی۔۔۔!!
گارڈز نے سانیہ کو دیکھتے ہی سلام کیا۔۔۔اسلام و علیکم میڈم۔۔لیکن سانیہ بنا سلام کا جواب دئیے تیزی سے اندر کی طرف بڑھی۔۔۔فہیم بھی اس کے ساتھ جلدی سے اندر چلا گیا۔۔۔!!
حنان اندر جاتے ہی سامنے پڑے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھ گیا۔۔۔ماما۔۔۔۔بابا۔۔منال زور زور سے چلا رہی تھی۔۔۔!!
منال کی آواز سنتے ہی وہ دونوں سامنے والے کمرے سے باہر نکلے منال بھاگ کر ان سے لپٹ گئی۔۔۔ان کی نظر سامنے بیٹھے حنان پر پڑی تو ان کے حوش اڑ گئے۔۔۔!!
فہیم اور سانیہ بھی اسی وقت گھر میں داخل ہوئے۔۔۔سامنے حنان کو بیٹھے دیکھ دونوں کے چہروں کا رنگ اڑ گیا۔۔۔!!
حنان۔۔۔!! یہ کیا بد تمیزی ہے۔۔تم یہاں کیا کر رہے ہو۔۔سانیہ تیزی سے حنان کی طرف بڑھی۔۔۔حنان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے آگے بڑھنے سے منع کر دیا۔۔!!
حنان اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔سانیہ تپ چکی تھی۔۔۔حنان یہ کیا حرکت تھی۔۔کیا میں جان سکتی ہوں۔۔۔تم منال کو ساتھ کیوں لے کر گئے۔۔۔؟؟؟
اٹس نان آف یور بزنس۔۔۔۔مسز فہیم۔۔۔حنان مسز فہیم پر زور ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔منال اپنی ماں سے لپٹے مسلسل آنسو بہا رہی تھی۔۔۔!!
سانیہ کے تو ہوش اڑ گئے حنان کی بے رخی پر۔۔۔تم شاید بھول رہے ہو حنان میں مسز فہیم ہونے کے ساتھ ساتھ تمہاری بڑی بہن بھی ہوں۔۔۔!! سانیہ ایک ایک لفظ چبا کر بولی۔۔۔!!
ایکسکیوزمی۔۔۔!! کون بہن۔۔۔۔؟؟ میں آپ کو نہی جانتا۔۔۔!! میں تو اپنی بیوی کو ملوانے لایا تھا اس کے گھر والوں سے۔۔۔!!
بیوی۔۔۔!! بے ساختہ سانیہ کے منہ سے نکلا اور اس کی نظر روتی ہوئی منال پر پڑی۔۔۔وہ جلدی سے منال کی طرف بڑھی۔۔۔منال چپ ہو جاو پلیز اور مجھے بتاو کیا ہوا ہے۔۔۔!!
یہ حنان کیا کہ رہا ہے کیا یہ سچ ہے۔۔۔؟؟ منال نے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔۔تو وہاں کھڑے سب کے چہروں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔۔۔۔!!
منال کے بابا حنان کی طرف بڑھے۔۔۔بیٹا یہ سب کیا ہے۔۔تم نے کیوں کیا ایسا میری پھول سی بچی کے ساتھ آخر اس نے کیا بگاڑا تھا تمہارا۔۔۔!!
فہیم بھی تیزی سے آگے بڑھا۔۔۔ہاں حنان جو کچھ بھی ہوا ساری غلطی میری اور سانیہ کی ہے تم جو سزا دینا چاہوں ہمیں دو۔۔۔لیکن پلیز منال کو چھوڑ دو۔۔۔۔!!
ایسے کیسے چھوڑ دوں منال کو ابھی ابھی تو نکاح ہوا ہے ہمارا۔۔۔!! اب تو پوری زندگی ساتھ گزارنی ہے۔۔کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ سالے صاحب۔۔۔۔آپ کو تو خوش ہونا چاہیے۔۔۔!!
یہ سب کچھ آپ ہی تو مہربانی ہے کہ اتنے بڑے گھر کی بہو بن گئی آپ کی بہن اور کیا چاہیے آپ کو۔۔۔!!!!!
چلیں منال۔۔۔!! حنان منال کی طرف بڑھا آخری بار مل کو جتنا ملنا ہے سب سے کیونکہ اس کے بعد تمہیں یہ موقع دوبارہ نہی ملنے والا۔۔۔!!
منال کو اس وقت وہ دنیا کا سب سے ظالم انسان لگا۔۔۔نہی بابا میں نہی جاوں گی۔۔منال جلدی سے اپنے بابا کے پیچھے چھپ گئی۔۔۔بابا مجھے بچا لیں۔۔مجھے ان کے ساتھ نہی جانا۔۔!!
منال کہی نہی جائے گی۔۔۔فہیم اور سانیہ بھی تیزی سے منال کی طرف بڑھے۔۔۔حنان مجھے تم سے یہ امید نہی تھی۔۔۔جاو یہاں سے منال کہی نہی جائے گی اب تمہارے ساتھ بند کرو اب یہ سب کچھ۔۔۔!!
سانیہ غصے سے بولی۔۔۔لیکن حنان ایسے کھڑا تھا جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔۔۔وہ آگے بڑھا اور منال کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا۔۔اور گاڑی میں بٹھا کر ڈرائیور کو گاڑی سٹارٹ کرنے کا اشارہ دیا۔۔۔!!
ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔منال خود کو سب سے دور جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی وہ کچھ نہی کر پائی اپنے لیے۔۔۔وہ کر بھی کیا سکتی تھی ایک لڑکی جو تھی کمزور سی۔۔۔!!
اپنوں کی خاطر اسے اپنی قربانی دینی پڑی۔۔یہ زخم بھی تو اپنوں کے ہی دئیے ہوئے تھے۔۔۔وہ گلہ کرتی بھی تو کس سے کرتی۔۔۔یہ اس کے بھائی کی غلطی کی سزا ہی تو تھی جو اس کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔۔۔۔!!
ایک سال پہلے اس کے بھائی نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا کسی کے گھر کی عزت کو اپنے گھر لے آیا تھا اپنی عزت بنانے کے لیے۔۔۔کیا بیتی ہو گی ان ماں باپ پر جب ان کو اپنی بیٹی کی شادی کی خبر ملی ہو گی۔۔۔۔!!
اس بات کا اندازہ آج منال کو ہو چکا تھا اپنے ماں باپ کی حالت دیکھ کر۔۔۔۔یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے آج منال کو اس بات کی سمجھ آ گئی تھی۔۔۔لیکن غلطی تو بھائی کی تھی نہ تو پھر سزا مجھے کیوں مل رہی ہے۔۔۔؟؟
منال سوچوں میں گم بیٹھی رہی اسے پتہ ہی نہی چلا کب سارا راستہ گزر گیا۔۔اور وہ واپس اس محل میں آ گئی۔۔لیکن اسے یہ محل کسی قید خانے سے کم نہی لگ تھا۔۔۔اسے واپس اسی کمرے میں بند کر دیا گیا۔۔۔!! 
فہیم کو اور سانیہ کو آج شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔۔۔وہ دونوں سر جھکائے بیٹھے سوچوں میں گم تھے۔۔۔!!
سانیہ جانتی تھی حنان کے غصے کو وہ سمجھ چکی تھی حنان ظلم کی انتہا کر دے گا منال پر۔۔لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی منال کے لیے کچھ نہی کر سکتی تھی۔۔۔!!
اس گھر کے دروازے اس نے خود بند کیے تھے اپنے لیے۔۔۔فہیم سے اس کی شادی اس کی پسند سے ہوئی تھی۔۔۔دونوں ساتھ پڑھتے تھے یونیورسٹی میں۔۔۔۔!!
سانیہ کے گھر والوں کو فہیم پسند نہی تھا کیونکہ وہ ان کے سٹینڈرڈ کا نہی تھا۔۔۔ان کو اپنی بیٹی امیر گھرانے میں بیاہنی تھی۔۔۔بس یہی وجہ تھی انکار کی۔۔۔۔۔!!!!
لیکن سانیہ سوچ چکی تھی کہ وہ بس فہیم سے ہی شادی کرے گی۔۔۔۔اس کے گھر والوں نے اس کا رشتہ طے کر دیا تھا۔۔۔لیکن سانیہ کو یہ رشتہ منظور نہی تھا۔۔۔!!
سانیہ نے شادی سے دو دن پہلے گھر سے بھاگ کر فہیم سے شادی کر لی۔۔۔اور فہیم سانیہ کو ساتھ لے کر گھر آ گیا۔۔۔فہیم کے ساتھ سانیہ کو دیکھ کر اس کے ابو غصے میں آ گئے۔۔۔!!
کون ہے یہ لڑکی تمہارے ساتھ وہ غصے سے بولے۔۔۔؟؟؟
ابو یہ سانیہ ہے میرے ساتھ پڑھتی ہے۔۔۔ہم نے نکاح کر لیا ہے۔۔۔فہیم سر جھکاتے ہوئے بولا۔۔۔!!
وہ غصے سے آگے بڑھے اور تھپڑ پر تھپڑ برساتے گئے فہیم پر۔۔۔اس کی امی جلدی سے آگے بڑھی اور فہیم کو بچانے لگ پڑی۔۔!!
تم سائیڈ پر ہٹو بیگم۔۔۔۔آج میں اس کو چھوڑوں گا نہی۔۔۔یہ تمہارے لاڈ پیار کا ہی نتیجہ ہے جو آج اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے اس نے۔۔۔!!
اس سے کہو چلا جائے اس لڑکی کو لے کر یہاں سے ہمارا اب اس سے کوئی رشتہ نہی ہے۔۔۔اسے شرم نہی آئی گھر میں جوان بہن ہے اور یہ کیا حرکت کر بیٹھا ہے۔۔۔!!
سنا نہہی تم نے فہیم نکل جاو میرے گھر سے وہ غصے سے بولے تو فہیم سانیہ کو وہاں سے لے کر نکل گیا۔۔۔اور اپنے ایک دوست کا گھر کرائے پر لے لیا اور تب سے وہ وہی رہ رہا ہے۔۔۔۔!!
اب کیا فائدہ پچھتانے کا۔۔۔ابو کی آواز پر دونوں سوچوں کے سمندر سے باہر نکلے۔۔۔!!
جاو تم دونوں اپنے گھر خوش رہو ہماری دعا ہے۔۔۔لیکن ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔۔۔جو میری بیٹی کی قسمت میں لکھا تھا وہی ہو رہا ہے اس کے ساتھ۔۔۔اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔!!
نہی ابو جی پلیز ہمیں معاف کر دیں۔۔۔سانیہ جلدی سے ان کے قدموں میں بیٹھ گئی۔۔۔یہ سب میری غلطی کی سزا ہے جو منال کو مل رہی ہے۔۔۔ہم سے اس طرح منہ نہ موڑیں۔۔۔!!
نہی بیٹا تم اٹھو یہاں سے بیٹیاں قدموں میں نہی بیٹھتی۔۔۔بیٹیوں کی جگہ تو باپ کے دل میں ہوتی ہے۔۔۔وہ سانیہ کو اٹھا کر اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے بولے۔۔۔جو ہوا اسے بھول جاو۔۔۔اور اپنے گھر واپس آ جاو۔۔۔۔!!

   1
0 Comments